EN हिंदी
کوئی مرکز سے الگ ہے کوئی محور سے الگ | شیح شیری
koi markaz se alag hai koi mehwar se alag

غزل

کوئی مرکز سے الگ ہے کوئی محور سے الگ

کلیم اختر

;

کوئی مرکز سے الگ ہے کوئی محور سے الگ
آدمی خود ہو گیا ہے اپنے پیکر سے الگ

کتنے خانوں میں بٹا ہے عہد نو کا آدمی
کوئی باہر سے جدا ہے کوئی اندر سے الگ

بے لباسی کے سوا اب کچھ نظر آتا نہیں
اس قدر ہے جسم خودداری کی چادر سے الگ

داغ دل کشمیر کا گجرات کا دل دردناک
حادثہ کوئی کہاں ہے چھ دسمبر سے الگ

بند تھیں المایوں میں چاہتوں کی فائلیں
کس نے کی اخترؔ یہ دستاویز دفتر سے الگ