کوئی مرکز سے الگ ہے کوئی محور سے الگ
آدمی خود ہو گیا ہے اپنے پیکر سے الگ
کتنے خانوں میں بٹا ہے عہد نو کا آدمی
کوئی باہر سے جدا ہے کوئی اندر سے الگ
بے لباسی کے سوا اب کچھ نظر آتا نہیں
اس قدر ہے جسم خودداری کی چادر سے الگ
داغ دل کشمیر کا گجرات کا دل دردناک
حادثہ کوئی کہاں ہے چھ دسمبر سے الگ
بند تھیں المایوں میں چاہتوں کی فائلیں
کس نے کی اخترؔ یہ دستاویز دفتر سے الگ
غزل
کوئی مرکز سے الگ ہے کوئی محور سے الگ
کلیم اختر