کوئی مکیں بھی نہ تھا اس مکاں سے لوٹا ہوں
خدا ہی جانتا ہے میں کہاں سے لوٹا ہوں
حیات گزری تھی کردار جس کے گڑھنے میں
ذلیل ہو کے اسی داستاں سے لوٹا ہوں
نہ کوئی نقش نظر میں نہ دھول کپڑوں پہ
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہاں سے لوٹا ہوں
جہاں پہ آ کے مکمل ہوئے وجود تمام
ادھورا ہو کہ اکیلا وہاں سے لوٹا ہوں
وہ خوشبوئیں تو مرے تاک میں ہی تھیں رقصاں
تلاش کر کہ جنہیں گلستاں سے لوٹا ہوں
زمین والوں زمیں کی نہ داستاں پوچھو
گزشتہ رات ہی میں آسماں سے لوٹا ہوں
جہاں پہ فانیؔ کو فانی بنایا جاتا ہے
میں اب کے بار اسی آستاں سے لوٹا ہوں

غزل
کوئی مکیں بھی نہ تھا اس مکاں سے لوٹا ہوں
فانی جودھپوری