EN हिंदी
کوئی محبوب ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے | شیح شیری
koi mahbub sitamgar bhi to ho sakta hai

غزل

کوئی محبوب ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے

ؔسراج عالم زخمی

;

کوئی محبوب ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے

ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے

مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے

کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے

صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے

چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے

صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے

تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے

سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے

کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے