EN हिंदी
کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں | شیح شیری
koi lashkar ki dhaDakte hue gham aate hain

غزل

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں

بشیر بدر

;

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں
شام کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں

دل وہ درویش ہے جو آنکھ اٹھاتا ہی نہیں
اس کے دروازے پہ سو اہل کرم آتے ہیں

مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لیے
کبھی سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں

میں نے دو چار کتابیں تو پڑھی ہیں لیکن
شہر کے طور طریقے مجھے کم آتے ہیں

خوبصورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لیے
گھر کی دہلیز پہ ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں