کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں
شام کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں
دل وہ درویش ہے جو آنکھ اٹھاتا ہی نہیں
اس کے دروازے پہ سو اہل کرم آتے ہیں
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لیے
کبھی سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں
میں نے دو چار کتابیں تو پڑھی ہیں لیکن
شہر کے طور طریقے مجھے کم آتے ہیں
خوبصورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لیے
گھر کی دہلیز پہ ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں
غزل
کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں
بشیر بدر