کوئی خاموش زخم لگتی ہے
زندگی ایک نظم لگتی ہے
بزم یاراں میں رہتا ہوں تنہا
اور تنہائی بزم لگتی ہے
اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں
چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے
چاند کی نبض دیکھنا اٹھ کر
رات کی سانس گرم لگتی ہے
یہ روایت کہ درد مہکے رہیں
دل کی دیرینہ رسم لگتی ہے
غزل
کوئی خاموش زخم لگتی ہے
گلزار