EN हिंदी
کوئی خاموش زخم لگتی ہے | شیح شیری
koi KHamosh zaKHm lagti hai

غزل

کوئی خاموش زخم لگتی ہے

گلزار

;

کوئی خاموش زخم لگتی ہے
زندگی ایک نظم لگتی ہے

بزم یاراں میں رہتا ہوں تنہا
اور تنہائی بزم لگتی ہے

اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں
چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے

چاند کی نبض دیکھنا اٹھ کر
رات کی سانس گرم لگتی ہے

یہ روایت کہ درد مہکے رہیں
دل کی دیرینہ رسم لگتی ہے