کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
اور جو یہ تنگ کریں منہ سے شکایت نہ کرے
عشق کے داغ کو دل مہر نبوت سمجھا
ڈر ہے کافر کہیں دعوائے نبوت نہ کرے
ہے جراحت کا مری سودۂ الماس علاج
فائدہ اس کو کبھی سنگ جراحت نہ کرے
ہر قدم پر مرے اشکوں سے رواں ہے دریا
کیا کرے جادہ اگر ترک رفاقت نہ کرے
آج تک خوں سے مرے تر ہے زبان خنجر
کیا کرے جب کہ طلب کوئی شہادت نہ کرے
ہے یہ انساں بڑے استاد کا شاگرد رشید
کر سکے کون اگر یہ بھی خلافت نہ کرے
بن جلے شمع کے پروانہ نہیں جل سکتا
کیا بڑھے عشق اگر حسن ہی سبقت نہ کرے
پھر چلا مقتل عشاق کی جانب قاتل
سر پہ برپا کہیں کشتوں کے قیامت نہ کرے
غزل
کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
شیخ ابراہیم ذوقؔ