کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا
کب سے کوئی کسی دیوار میں در چاہتا تھا
ضبط کے پیڑ نے گل اور کھلائے اب کے
اور ہی طرز کا یہ دل تو ثمر چاہتا تھا
آخری منزل تسکین دل و جان تلک
منزلیں راہ نہ کاٹیں یہ سفر چاہتا تھا
چند لمحوں کے لئے جڑ کو وہ سیراب کرے
اور شتابی سے نکل آئے ثمر چاہتا تھا
کتنا کم فہم تھا کوئی کہ جلا کر ان کو
زندگی پر مرے خوابوں کا اثر چاہتا تھا
یہ الگ بات کہ تیشے سے شناسائی نہ تھی
وارنا جان کوئی تجھ پہ مگر چاہتا تھا
ہجر احساس کو شل بھی تو کیے رہتا ہے
اثر اس کا کوئی با رنگ دگر چاہتا تھا
اس کو سایوں کے تعاقب میں لکھا تھا رہنا
درد آنگن میں گھنا ایک شجر چاہتا تھا
ایک گہری سی نظر روزن دل کے اندر
دشت احساس کہاں شمس و قمر چاہتا تھا
آندھیاں دوش پہ لے کر وہ اڑا پھرتا ہو
اور سلامت بھی رہے کانچ نگر چاہتا تھا
غزل
کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا
صائمہ اسما