EN हिंदी
کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا | شیح شیری
koi imkan to na tha us ka magar chahta tha

غزل

کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا

صائمہ اسما

;

کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا
کب سے کوئی کسی دیوار میں در چاہتا تھا

ضبط کے پیڑ نے گل اور کھلائے اب کے
اور ہی طرز کا یہ دل تو ثمر چاہتا تھا

آخری منزل تسکین دل و جان تلک
منزلیں راہ نہ کاٹیں یہ سفر چاہتا تھا

چند لمحوں کے لئے جڑ کو وہ سیراب کرے
اور شتابی سے نکل آئے ثمر چاہتا تھا

کتنا کم فہم تھا کوئی کہ جلا کر ان کو
زندگی پر مرے خوابوں کا اثر چاہتا تھا

یہ الگ بات کہ تیشے سے شناسائی نہ تھی
وارنا جان کوئی تجھ پہ مگر چاہتا تھا

ہجر احساس کو شل بھی تو کیے رہتا ہے
اثر اس کا کوئی با رنگ دگر چاہتا تھا

اس کو سایوں کے تعاقب میں لکھا تھا رہنا
درد آنگن میں گھنا ایک شجر چاہتا تھا

ایک گہری سی نظر روزن دل کے اندر
دشت احساس کہاں شمس و قمر چاہتا تھا

آندھیاں دوش پہ لے کر وہ اڑا پھرتا ہو
اور سلامت بھی رہے کانچ نگر چاہتا تھا