کوئی الزام میرے نام میرے سر نہیں آیا
وہ جو طوفان اندر تھا مرے باہر نہیں آیا
یہ کس کی دید نے آنکھوں کو بھر ڈالا خلا سے یوں
کہ پھر آنکھوں میں کوئی دوسرا منظر نہیں آیا
جنوں بردار کوئی روئے صحرا پر نہیں دیکھا
کنار آب جو پیاسا کوئی لشکر نہیں آیا
ہوئی بارش درختوں نے بدن سے گرد سب جھاڑی
کوئی ساون کوئی موسم مرے اندر نہیں آیا
کہیں پتھرا گئی آنکھیں کہیں شل حوصلوں کے پاؤں
کہیں رہ رو نہیں پہنچا کہیں پر گھر نہیں آیا
کبھی کشتی پہ کوئی بادباں میں نے نہیں رکھا
اڑانوں کے لیے میری کوئی شہ پر نہیں آیا
نہیں ہو کر بھی ہے ہر سانس میں شامل مقابل بھی
مگر ذی ہوش کہتے ہیں کوئی جا کر نہیں آیا
غزل
کوئی الزام میرے نام میرے سر نہیں آیا
اکرم نقاش