EN हिंदी
کوئی ہوتا ہے، ہر اک آشنا اچھا نہیں ہوتا | شیح شیری
koi hota hai, har ek aashna achchha nahin hota

غزل

کوئی ہوتا ہے، ہر اک آشنا اچھا نہیں ہوتا

لطیف ساحل

;

کوئی ہوتا ہے، ہر اک آشنا اچھا نہیں ہوتا
ضرورت سے زیادہ رابطہ اچھا نہیں ہوتا

سنبھل کر کھیلنا چاہو تو دل سے کھیل سکتے ہو
بچاؤ ہاتھ ٹوٹا آئنا اچھا نہیں ہوتا

جو ویرانوں میں ہوتے ہیں وہ گھر محفوظ ہوتے ہیں
کسی کی دسترس میں گھونسلہ اچھا نہیں ہوتا

ڈبو دے گی گھریلو کشمکش معصوم بچوں کو
کناروں میں زیادہ فاصلہ اچھا نہیں ہوتا

تغافل تیرا شیوہ ہے مگر اے بھولنے والے
محبت کے دنوں کو بھولنا اچھا نہیں ہوتا

کسی کی بات سننا بھی ضروری ہے تفاوت میں
کہ یک طرفہ کوئی بھی فیصلہ اچھا نہیں ہوتا

سمندر بازوؤں کو آزماتا ہے کنارے تک
مسافت میں شکستہ حوصلہ اچھا نہیں ہوتا

گلی میں گر بھی سکتا ہے کوئی رہ گیر ٹھوکر سے
دریچے سے ہر اک کو دیکھنا اچھا نہیں ہوتا