کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
اتنی خوب خار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں
یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے
تین چوتھائی سے زائد ہیں جو آبادی میں
ان کے ہی واسطے ہر بھوک ہے مہنگائی ہے
دیکھے کب تلک باقی رہے سج دھج اس کی
آج جس چہرہ سے تصویر اتروائی ہے
اب نظر آتا نہیں کچھ بھی دوکانوں کے سوا
اب نہ بادل ہیں نہ چڑیاں ہیں نہ پروائی ہے
غزل
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
ندا فاضلی