EN हिंदी
کوئی حسیں منظر آنکھوں سے جب اوجھل ہو جائے گا | شیح شیری
koi hasin manzar aankhon se jab ojhal ho jaega

غزل

کوئی حسیں منظر آنکھوں سے جب اوجھل ہو جائے گا

طاہر فراز

;

کوئی حسیں منظر آنکھوں سے جب اوجھل ہو جائے گا
مجھ کو پاگل کہنے والا خود ہی پاگل ہو جائے گا

پلکوں پہ اس کی جلے بجھیں گے جگنو جب مری یادوں کے
کمرے میں ہوں گی برساتیں گھر جنگل ہو جائے گا

جس دن اس کی زلفیں اس کے شانوں پر کھل جائیں گی
اس دن شرم سے پانی پانی خود بادل ہو جائے گا

جب بھی وہ پاکیزہ دامن آ جائے گا ہاتھ مرے
آنکھوں کا یہ میلا پانی گنگا جل ہو جائے گا

اس کی یادیں اس کی باتیں اس کی وفائیں اس کا پیار
کس کو خبر تھی جینا مشکل ایک اک پل ہو جائے گا

مت گھبرا اے پیاسے دریا سورج آنے والا ہے
برف پہاڑوں سے پگھلی تو جل ہی جل ہو جائے گا