EN हिंदी
کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا | شیح شیری
koi dil to nahin hai ki Thahar jaega

غزل

کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا

مشفق خواجہ

;

کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا
وقت اک خواب رواں ہے سو گزر جائے گا

ہر گزرتے ہوئے لمحے سے یہی خوف رہا
حسرتوں سے مرے دامن کو یہ بھر جائے گا

شدت غم سے ملا زیست کو مفہوم نیا
ہم سمجھتے تھے کہ دل جینے سے بھر جائے گا

چند لمحوں کی رفاقت ہی غنیمت ہے کہ پھر
چند لمحوں میں یہ شیرازہ بکھر جائے گا

اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا

یادیں رہ جائیں گی اور یادیں بھی ایسی جن کا
زہر آنکھوں سے رگ و پے میں اتر جائے گا