کوئی دیوار نہ در باقی ہے
دشت خوں حد نظر باقی ہے
سب مراحل سے گزر آیا ہوں
اک تری راہ گزر باقی ہے
صبح روشن ہے چھتوں کے اوپر
رات پلکوں پہ مگر باقی ہے
خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں
اک مرا دیدۂ تر باقی ہے
کون دیتا ہے صدائیں مجھ کو
کس کے ہونٹوں کا اثر باقی ہے
کٹ گئی شاخ تمنا عنبرؔ
نا امیدی کا شجر باقی ہے
غزل
کوئی دیوار نہ در باقی ہے
عنبر شمیم