کوئی دھڑکن کوئی الجھن کوئی بندھن مانگے
ہر نفس اپنی کہانی میں نیا پن مانگے
دشت افکار میں ہم سے نئے موسم کا مزاج
بجلیاں تنکوں کی شعلوں کا نشیمن مانگے
رات بھر گلیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی صدا
کسی کھڑکی کی سلگتی ہوئی چلمن مانگے
زہر سناٹے کا کب تک پئے صحرائے سکوت
ریت کا ذرہ بھی آواز کی دھڑکن مانگے
کالی راتوں کے جہنم میں بدن سوکھ گیا
دامن صبح کی ٹھنڈک کوئی برہن مانگے
حبس وہ ہے کہ نظاروں کا بھی دم گھٹتا ہے
کوئی سوندھی سی مہک اب مرا آنگن مانگے
زندگی جن کے تصادم سے ہے زخمی فرحتؔ
دل انہیں ٹوٹے ہوئے سپنوں کا درپن مانگے
غزل
کوئی دھڑکن کوئی الجھن کوئی بندھن مانگے
فرحت قادری