EN हिंदी
کوئی دیتا ہے کسی کو بھی تو کیا دیتا ہے | شیح شیری
koi deta hai kisi ko bhi to kya deta hai

غزل

کوئی دیتا ہے کسی کو بھی تو کیا دیتا ہے

قوس صدیقی

;

کوئی دیتا ہے کسی کو بھی تو کیا دیتا ہے
دست احسان کو میزان پہ لا دیتا ہے

کوئی تو سنگ لب راہ سا مونس ٹھہرے
راہ کا موڑ جو چپکے سے بتا دیتا ہے

شہر گم گشتہ کا وہ کتبہ جو ہے گرد آلود
ہر مسافر اسے جینے کی دعا دیتا ہے

یہ مرا عہد ہے تاویل سکونت دے کر
گھر کے دروازے کو دیوار بنا دیتا ہے

قوسؔ بے سود نہیں جاتا ہے پانی کا لہو
یہ ٹپکتا ہے تو رنگین فضا دیتا ہے