EN हिंदी
کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے | شیح شیری
koi daraKHt koi saeban rahe na rahe

غزل

کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے

رئیس انصاری

;

کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے
بزرگ زندہ رہیں آسماں رہے نہ رہے

کوئی تو دے گا صدا حرف حق کی دنیا میں
ہمارے منہ میں ہماری زباں رہے نہ رہے

ہمیں تو پڑھنا ہے میدان جنگ میں بھی نماز
مؤذنوں کے لبوں پر اذاں رہے نہ رہے

ہمیں تو لڑنا ہے دنیا میں ظالموں کے خلاف
قلم رہے کوئی تیر و کماں رہے نہ رہے

یہ اقتدار کے بھوکے یہ رشوتوں کے وزیر
بلا سے ان کا یہ ہندوستاں رہے نہ رہے

خدا کرے گا سمندر میں رہنمائی بھی
یہ ناؤ باقی رہے بادباں رہے نہ رہے