کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے
بزرگ زندہ رہیں آسماں رہے نہ رہے
کوئی تو دے گا صدا حرف حق کی دنیا میں
ہمارے منہ میں ہماری زباں رہے نہ رہے
ہمیں تو پڑھنا ہے میدان جنگ میں بھی نماز
مؤذنوں کے لبوں پر اذاں رہے نہ رہے
ہمیں تو لڑنا ہے دنیا میں ظالموں کے خلاف
قلم رہے کوئی تیر و کماں رہے نہ رہے
یہ اقتدار کے بھوکے یہ رشوتوں کے وزیر
بلا سے ان کا یہ ہندوستاں رہے نہ رہے
خدا کرے گا سمندر میں رہنمائی بھی
یہ ناؤ باقی رہے بادباں رہے نہ رہے
غزل
کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے
رئیس انصاری