کوئی بھی لفظ عبرت آشنا میں پڑھ نہیں سکتا
بصیرت کو نہ جانے کیا ہوا میں پڑھ نہیں سکتا
سمندر نے ہوا کے نام اک خط ریگ ساحل پر
کسی مردہ زباں میں لکھ دیا میں پڑھ نہیں سکتا
یہ انسانوں کے ماتھے تو نہیں کتبے ہیں قبروں کے
ہر اک چہرے پہ اس کا مرثیہ میں پڑھ نہیں سکتا
زمین و آسماں سورج ستارے چاند سیارے
کتاب دائرہ در دائرہ میں پڑھ نہیں سکتا
غزل
کوئی بھی لفظ عبرت آشنا میں پڑھ نہیں سکتا
سید نصیر شاہ