کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے
مری ہی ذات تھی اس کائنات سے پہلے
کچھ اتنا ظلم ہوا ہے کہ مجھ کو لگتا ہے
کوئی بھی رات نہ گزری تھی رات سے پہلے
اگر وہ چھوٹ گیا بات یہ نئی تو نہیں
ملے تھے ہات بہت اس کے ہات سے پہلے
ہوئے نہیں تھے کبھی اتنے آبرو والے
کسی کے ساتھ نہ تھے اس کے سات سے پہلے
کوئی ہنسے بھی تو ابھرے صدا سسکنے کی
کوئی نجات نہ پائے نجات سے پہلے
غزل
کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے
سلطان سبحانی