EN हिंदी
کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے | شیح شیری
koi bhi baat na thi wardat se pahle

غزل

کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے

سلطان سبحانی

;

کوئی بھی بات نہ تھی واردات سے پہلے
مری ہی ذات تھی اس کائنات سے پہلے

کچھ اتنا ظلم ہوا ہے کہ مجھ کو لگتا ہے
کوئی بھی رات نہ گزری تھی رات سے پہلے

اگر وہ چھوٹ گیا بات یہ نئی تو نہیں
ملے تھے ہات بہت اس کے ہات سے پہلے

ہوئے نہیں تھے کبھی اتنے آبرو والے
کسی کے ساتھ نہ تھے اس کے سات سے پہلے

کوئی ہنسے بھی تو ابھرے صدا سسکنے کی
کوئی نجات نہ پائے نجات سے پہلے