EN हिंदी
کوئی بھی ارمان نہیں ہے | شیح شیری
koi bhi arman nahin hai

غزل

کوئی بھی ارمان نہیں ہے

پونم یادو

;

کوئی بھی ارمان نہیں ہے
یوں جینا آسان نہیں ہے

آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں
دل میں روشن دان نہیں ہیں

چھوڑو بھی اب ان قصوں کو
ان قصوں میں جان نہیں ہے

بات چھپانا سیکھو صاحب
کس گھر میں طوفان نہیں ہے

اب بھی تیرا حصہ ہوں میں
بس تجھ کو ہی دھیان نہیں ہے

جب تب خواہش اگ آتی ہیں
دل ہے ریگستان نہیں ہے

میں اک ایسا افسانا ہوں
جس کا کچھ عنوان نہیں ہے