کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں
ہم جو اتنی رات گئے تک گھر سے باہر رہتے ہیں
پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں
اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں
جب تک رہتے ہیں آنگن میں ہنگامہ تنہائی کے
خاموشی کے سائے بام و در سے باہر رہتے ہیں
جب سے بے چہروں کی بستی میں چہرے تقسیم ہوئے
اس دن سے ہم آئینوں کے گھر سے باہر رہتے ہیں
جس کی ریت پہ نام لکھے ہیں اظہرؔ ڈوبنے والوں کے
وہ ساحل موجوں کے شور و شر سے باہر رہتے ہیں
غزل
کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں
اظہرنقوی