EN हिंदी
کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں | شیح شیری
koi aisi baat hai jis ke Dar se bahar rahte hain

غزل

کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں

اظہرنقوی

;

کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں
ہم جو اتنی رات گئے تک گھر سے باہر رہتے ہیں

پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں
اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں

جب تک رہتے ہیں آنگن میں ہنگامہ تنہائی کے
خاموشی کے سائے بام و در سے باہر رہتے ہیں

جب سے بے چہروں کی بستی میں چہرے تقسیم ہوئے
اس دن سے ہم آئینوں کے گھر سے باہر رہتے ہیں

جس کی ریت پہ نام لکھے ہیں اظہرؔ ڈوبنے والوں کے
وہ ساحل موجوں کے شور و شر سے باہر رہتے ہیں