کوئی ادا شناس محبت ہمیں بتائے
جو ہم کو بھول جائے وہ کیوں ہم کو یاد آئے
کس کی مجال تھی کہ حجاب نظر اٹھائے
وہ مسکرا کے آپ ہی دل کے قریب آئے
اک دل نشیں نگاہ میں اللہ یہ خلش
نشتر کی نوک جیسے کلیجے میں ٹوٹ جائے
کچھ ہم سے بے خودی میں ہوئیں بے حجابیاں
چشمک زنی ستاروں نے کی پھول مسکرائے
ناداں سہی پر اتنے بھی ناداں نہیں ہیں ہم
خود ہم نے جان جان کے کتنے فریب کھائے
وہ جان آرزو کہ ہے سرمایۂ نشاط
کیوں اس کی یاد غم کی گھٹا بن کے دل پہ چھائے
کہتے تھے تم سے چھوٹ کے کیوں کر جئیں گے ہم
جیتے ہیں تم سے چھوٹ کے تقدیر جو دکھائے
مایوسیوں میں دل کا وہ عالم دم وداع
بجھتے ہوئے چراغ کی لو جیسے تھرتھرائے
تم تو ہمیں کو کہتے تھے یہ تم کو کیا ہوا
دیکھو کنول کے پھولوں سے شبنم چھلک نہ جائے
اک ناتمام خواب مکمل نہ ہو سکا
آنے کو زندگی میں بہت انقلاب آئے
غزل
کوئی ادا شناس محبت ہمیں بتائے
عندلیب شادانی