کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے بری چالوں سے
لب بام آ کے کھڑے ہو نہ کھلے بالوں سے
روز و شب کس لیے رہتا ہوں الٰہی بیتاب
نہ تو گوروں سے محبت نہ مجھے کالوں سے
جوش وحشت میں جو جنگل کی طرف جا نکلا
تپ چڑھی شیر نیستاں کو مرے نالوں سے
کوئی کچھ عشق کا کرتا ہے بیاں کوئی کچھ
تنگ آیا ہوں میں اس قضیہ کے دلالوں سے
بیشتر صبح شب وصل سے ہم گزریں گے
زور ادبار چلے گا نہ خوش اقبالوں سے
مست ہاتھی ہے تری چشم سیہ مست اے یار
صف مژگاں اسے گھیرے ہوے ہے بھالوں سے
روئے خوباں سے ملے گا ہمیں بوسہ کہ نہیں
حال ان شکلوں کا کچھ پوچھیے رمالوں سے
عارضی حسن سے نفرت یہ ہوئی ہے دل کو
رتبہ زلفوں کو نہیں مکڑیوں کے جالوں سے
خط شب گوں نے نکل کر عبث اندھیر کیا
کافرستاں تو وہ رخ آگے ہی تھا خالوں سے
دو جہاں حشر کے دن ہوویں گے باہم موجود
متفق ہوں گے اِدھر والے اُدھر والوں سے
دل حسینوں کے تصور سے بنایا خالی
آئینہ خانوں میں کثرت رہی تمثالوں سے
کچھ تو ہلکا کریں خار رہ صحرائے جنوں
بوجھ لنگر کا ہوئے ہیں کف پا چھالوں سے
ان کے بوسوں کی تمنا ہے لبوں کو آتشؔ
آئنہ کسب صفا کرتے ہیں جن گالوں سے
غزل
کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے بری چالوں سے
حیدر علی آتش