کوئی آسیب ہے سایہ ہے کہ جادوگر ہے
جانے کیا بات ہے ہر شخص کے دل میں ڈر ہے
ایک ہی ریلے میں بہہ جائے گی خستہ بنیاد
سیل بے مہر کے شانوں پہ ہمارا گھر ہے
تیرے دل میں بھی محبت کی حرارت نہ رہی
میرا سرمایۂ احساس بھی مٹھی بھر ہے
سانحہ ہے کہ ہمیں لوٹا گیا ہے پھر بھی
شہر لٹ جانے کا الزام ہمارے سر ہے
جسم اجڑی ہوئی بستی کا کھنڈر لگتا ہے
روح ویران جزیروں کی طرح بنجر ہے
مجھے دھڑکا ہے تو بس ٹوٹ کے گر جانے کا
سوچ کا کوہ گراں بار مرے سر پر ہے
جسم اندر سے ہر اک لمحہ چٹختا ہے نیازؔ
یوں تو قبروں کی سی خاموشی مرے باہر ہے
غزل
کوئی آسیب ہے سایہ ہے کہ جادوگر ہے
نیاز حسین لکھویرا