کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے
ترا غم رہے سلامت مرے دل میں کیا نہیں ہے
کہاں جام غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں
مجھے وہ دوا ملی ہے جو مری دوا نہیں ہے
تو بچائے لاکھ دامن مرا پھر بھی ہے یہ دعویٰ
ترے دل میں میں ہی میں ہوں کوئی دوسرا نہیں ہے
تمہیں کہہ دیا ستمگر یہ قصور تھا زباں کا
مجھے تم معاف کر دو مرا دل برا نہیں ہے
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے
یہ اداس اداس چہرے یہ حسیں حسیں تبسم
تری انجمن میں شاید کوئی آئنا نہیں ہے
مری آنکھ نے تجھے بھی بہ خدا شکیلؔ پایا
میں سمجھ رہا تھا مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ہے
غزل
کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے
شکیل بدایونی