EN हिंदी
کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں | شیح شیری
koi aabaad manzil hum jo viran dekh lete hain

غزل

کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں

صفی لکھنوی

;

کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
بہ حسرت سوئے چرخ فتنہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

نظر حسن آشنا ٹھہری وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جب آنکھیں بند کیں تصویر جاناں دیکھ لیتے ہیں

شب وعدہ ہمیشہ سے یہی معمول ہے اپنا
سحر تک راہ شوخ سست پیماں دیکھ لیتے ہیں

خدا نے دی ہیں جن روشن دلوں کو دوربیں نظریں
سواد کفر میں وہ نور ایماں دیکھ لیتے ہیں

دل بیتاب کا اصرار مانع شرم رسوائی
بچا کر سب کی نظریں سوئے جاناں دیکھ لیتے ہیں

وہ خود سر سے قدم تک ڈوب جاتے ہیں پسینے میں
بھری محفل میں جو ان کو پشیماں دیکھ لیتے ہیں

ٹپک پڑتے ہیں شبنم کی طرح بے اختیار آنسو
چمن میں جب کبھی گل ہائے خنداں دیکھ لیتے ہیں

نگاہ ناز کی مستانہ یہ نشتر زنی کیسی
بوقت فصد رگ زن بھی رگ جاں دیکھ لیتے ہیں

اسیران ستم کے پاسبانوں پر ہیں تاکیدیں
بدلتے ہیں جو پہرا قفل زنداں دیکھ لیتے ہیں

صفیؔ رہتے ہیں جان و دل فدا کرنے پہ آمادہ
مگر اس وقت جب انساں کو انساں دیکھ لیتے ہیں