کوہسار کا خوگر ہے نہ پابند گلستاں
آزاد ہے ہر قید مقامی سے مسلماں
گھر کنج قفس کو بھی بنا لیتی ہے بلبل
شاہیں کی نگاہوں میں نشیمن بھی ہے زنداں
اللہ کے بندوں کی ہے دنیا ہی نرالی
کانٹے کوئی بوتا ہے تو اگتے ہیں گلستاں
کہہ دو یہ قیامت سے دبے پاؤں گزر جائے
کچھ سوچ رہا ہے ابھی بھارت کا مسلماں
اے شیخ حرم آج ترا فیصلہ کیا ہے
صف بندئ مسجد کہ صف آرائی میداں
سینے میں شکم لے کے ابھرتی ہیں جو قومیں
بن جاتی ہیں آخر میں خود آزوقۂ دوراں
چلتی ہوئی اک بات ہے نا معتبر اک چیز
نا اہل کی دولت ہو کہ نادار کا ایماں
ملا کا یہ فتویٰ ہے کہ فاروقؔ ہے ملحد
اے دین محمد ترا اللہ نگہباں
غزل
کوہسار کا خوگر ہے نہ پابند گلستاں
فاروق بانسپاری