کوہ کے سینے سے آب آتشیں لاتا کوئی
اس نوائے آگہی کو ڈوب کر گاتا کوئی
دیکھتا مستی کا سنگم لب ہے یا گفتار ہے
جام سے میرے جو اپنا جام ٹکراتا کوئی
بادلوں کی طرح آیا برق آسا چل دیا
چاند کی مانند شب بھر تو ٹھہر جاتا کوئی
حسن کا دل سے تعلق دائمی ہے گرم ہے
ورنہ کس کا کس سے ہے رشتہ کوئی ناتا کوئی
مانگنے کو مانگ لیں اشعار غم سے دل کشی
مل نہیں سکتا ہے ان کو فکر سا داتا کوئی
نازش فردا مرا حسن تغزل ہے حسنؔ
رنج ہوتا آج گر کچھ قدر فرماتا کوئی
غزل
کوہ کے سینے سے آب آتشیں لاتا کوئی
حسن نعیم