EN हिंदी
کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا | شیح شیری
kiya salam jo saqi se humne jam liya

غزل

کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا

امداد علی بحر

;

کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا
پڑھے درود جو پیر مغاں کا نام لیا

چہ ذقن میں گرا چاہتا تھا دل میرا
دراز عمر ہو زلف رسا نے تھام لیا

کسی کا زور زبردست پر نہیں چلنا
فلک نے ظلم کیا کس نے انتقام لیا

نصیب ور تھی زلیخا جو پایا یوسف کو
کنیز ہو گئی اس شکل کا غلام لیا

بھرا لبوں نے برابر دم مسیحائی
جب اس کے ابروؤں نے حکم قتل عام لیا

مزاج پوچھا کسی کا تو ان کا منہ دیکھا
کسک سے ہاتھ میں آئے اگر سلام لیا

لگایا تھا کہیں دل ہم نے وہ مزا چکھا
زباں نے پھر نہ کبھی عاشقی کا نام لیا

بھرا ہے آنکھ میں جادو کھلا اشارے سے
زبان کا مژہ بے زباں سے کام لیا

بہت کمر کے لچکنے کا ہے خیال ان کو
جو دو قدم بھی چلے پائینچوں کو تھام لیا

چڑھا خمار جو سر پر اتر گئی عزت
عمامہ رکھ کے گرو ساغر مدام لیا

اٹھا کے داغ لیا حق سعی کا پیسا
نہ مرتشی کی طرح ہم نے زر حرام لیا

ہوا کو جان دی میں نے زمین کو مٹی
ادا کیا دم رخصت جو قرض دام لیا

معاف کی ہے خدا نے ضعیف پر تکلیف
ستم کیا اگر اب دست و پا سے کام لیا

قسم نہ کھاؤں گا تیسوں کلام کی اے بحرؔ
کسی کا خواب میں بوسہ تو لا کلام لیا