کیا ہے دل نے بیگانہ جہان مرغ و ماہی سے
ہمیں جاگیر آزادی ملی دربار شاہی سے
کھلا ہے غنچۂ حیرت ہوائے گاہ گاہی سے
ہوئے مجذوب رفتہ رفتہ اس کی کم نگاہی سے
تری دنیا میں اے دل ہم بھی اک گوشے میں رہتے ہیں
ہمیں بھی کچھ امیدیں ہیں تری عالم پناہی سے
رعایا میں شہنشاہ جنوں کی ہم بھی داخل ہیں
ہمیں بھی کچھ نہ کچھ نسبت تو ہے ظل الٰہی سے
ہوئے ہیں بسکہ بیعت اس نظر کے خانوادے میں
فقیری سے تعلق ہے نہ مطلب بادشاہی سے
کیا ہے اس نظر نے سرفراز اہل محبت کو
کسی کو تاج داری سے کسی کو بے کلاہی سے
کہاں وہ خانماں بربادی عشق اور کہاں یہ ہم
پھرا کرتے ہیں یوں ہی در بدر واہی تباہی سے
غزل
کیا ہے دل نے بیگانہ جہان مرغ و ماہی سے
احمد جاوید