EN हिंदी
کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر | شیح شیری
kiya bagh-e-jahan mein nam un ka sarw kah kah kar

غزل

کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر

ولی اللہ محب

;

کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر
کئی آہیں جو نکلی تھیں مرے سینے سے رہ رہ کر

سحاب‌ و برق ہیں یا شیشہ و ساغر ہیں کیا ہم تم
کہ ہم جس وقت روویں تم ہنسو اس وقت قہہ قہہ کر

ہمارا گریہ دیکھے چشم کم سے کیوں نہ دریا کو
سمندر سے کئی جاتے ہیں یاں اک پل میں بہہ بہہ کر

ہوئے جس گل کے ہم چاہ ذقن میں غرق کر دیں گے
مرے یک قطرۂ شبنم میں بلبل ڈوب چہہ چہہ کر

دھمک وہ آہ کے نعرے کی اپنے ہے کہ گردوں سے
ستارے ٹوٹے پڑتے ہیں کنویں جاتے ہیں دہ دہ کر

برائے امتحاں عشاق پر تیغے چلاتا ہے
جو زخمی ہو کے گرتے ہیں تو رہ جاتا ہے دہ دہ کر

دلا کوچے سے اس کے آج اگر تو خیر سے آیا
یہی دن کل بھی ہے در پیش شیخی سے نہ پہہ پہہ کر

نماز شیخ ہو اتمام کیوں کر سرقہ دشمن ہے
کہ ٹوٹے ہے وضو ہر بار جب کھاتے ہیں عہہ عہہ کر

عمارت تو ڈھے پھر بن سکے ہے پر ترے ہاتھوں
ہوئے ہیں خاک کیا کیا قصر دل اے شوخ ڈھہ ڈھہ کر

نہ ہو رخ سے ترے اے آہ فوجوں کا مقابل رخ
کیا تو نے سواروں کو پیادہ مات شہہ شہہ کر

لب بام آ کے ابرو کی جھمک دن صلح کے دکھلا
کہ عالم دیکھنے کو شہر کا دوڑے ہے مہہ مہہ کر

زمیں میں گڑ گئے دیکھ اس قد رعنا کو خجلت سے
لب جو پر اکڑتے تھے کھڑے کیا سرو لہہ لہہ کر

وفائیں روز اول سے مری تجھ کو نہ خوش آئیں
جفا میں میں تیری آخر ہوا بھر عمر سہہ سہہ کر

ادھر تو جامہ چین کھولے ہے اس گل رو کے دامن کو
ادھر بلبل رکھے ہے رخت گل خجلت سے تہہ تہہ کر

لڑاتا ہے اگر اغیار سے تو روز و شب آنکھیں
محبؔ اپنے پر اے ظالم نگاہ لطف گہہ گہہ کر