کتنی تعبیروں کے منہ اترے پڑے ہیں
خواب اب تک ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں
راہ میں جو میل کے پتھر گڑے ہیں
رہنماؤں کی طرح ششدر کھڑے ہیں
کوئی اپنے آپ تک پہنچے تو کیسے
آگہی کے کوس بھی کتنے کڑے ہیں
زندگی ہم تجھ سے بھی لڑ کر جئیں گے
ہم جو خود اپنے ہی سائے سے لڑے ہیں
دوستو سر پر بھی آ جاتا ہے سورج
دھوپ کم ہے اس لیے سائے بڑے ہیں
ہم کو بھی کچھ وقت دے اے جان محفل
ہم نے بھی دو ایک افسانے گڑھے ہیں
غزل
کتنی تعبیروں کے منہ اترے پڑے ہیں
ذکا صدیقی