کتنی سچائی کس خبر میں ہے
یہ تو اخبار کی نظر میں ہے
گھر میں رہنا تمہیں نہیں آتا
ورنہ سارا سکون گھر میں ہے
آسماں ایک سا ہے سب کے لئے
فرق تیری مری نظر میں ہے
زہر اتنا تو سانپ میں بھی نہیں
زہر جتنا تمہارے ڈر میں ہے
ہر قدم پر بھلے ہوں مے خانہ
ایک مسجد بھی رہ گزر میں ہے
میں جو چاہوں تو پھونک دوں دنیا
آگ اتنی مرے جگر میں ہے
میری خواہش ہے چاند چھونے کی
یوجنا آج بھی ادھر میں ہے
غزل
کتنی سچائی کس خبر میں ہے
اشوک مزاج بدر