کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں
کیا خبر تھی اس انجام کی کچھ نہیں کچھ نہیں
آج جتنے برادر ملے چاک چادر ملے
کیسی پھیلی ہے دیوانگی کچھ نہیں کچھ نہیں
پیچ در پیچ چلتے گئے ہم نکلتے گئے
جانے کیا تھی گلی در گلی کچھ نہیں کچھ نہیں
موج در موج اک فاصلہ رفتہ رفتہ بڑھا
کشتی آنکھوں سے اوجھل ہوئی کچھ نہیں کچھ نہیں
ساتھ میرے کوئی اور تھا اے ہوا اے ہوا
نام تو جس کا لیتی رہی کچھ نہیں کچھ نہیں
شام ساکت شجر در شجر رہ گزر رہ گزر
آنکھ ملتی اٹھی تیرگی کچھ نہیں کچھ نہیں
جا کے تو دل میں در آئے گا میرے گھر آئے گا
ہے جدائی گھڑی دو گھڑی کچھ نہیں کچھ نہیں
غزل
کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں
عبد الحمید