EN हिंदी
کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے | شیح شیری
kitni bar bataun tujhko kaisa lagta hai

غزل

کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے

نوین سی چترویدی

;

کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے
تجھ سے ملنا باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

نتھنی سے اوپر پلکوں سے نیچے گھونگھٹ رکھ
مجھ کو آدھا چاند بہت ہی پیارا لگتا ہے

صدیوں سے ہے یوں ہی تر و تازہ اور خوشبو دار
کیسے کہہ دوں عشق گلابوں جیسا لگتا ہے

آنسو کا قطرہ کھارا ہی ہوتا ہے لیکن
تجھ کو دیکھ کر چھلکے ہے تو میٹھا لگتا ہے

کہاں ترا اپنا پن اور کہاں میرے احسان
پربت ہو کر بھی میرا قد بونا لگتا ہے

اب بھی دل والوں کی بزمیں سجتی ہیں لیکن
پہلے میلے لگتے تھے اب مجمع لگتا ہے