کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے
تجھ سے ملنا باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
نتھنی سے اوپر پلکوں سے نیچے گھونگھٹ رکھ
مجھ کو آدھا چاند بہت ہی پیارا لگتا ہے
صدیوں سے ہے یوں ہی تر و تازہ اور خوشبو دار
کیسے کہہ دوں عشق گلابوں جیسا لگتا ہے
آنسو کا قطرہ کھارا ہی ہوتا ہے لیکن
تجھ کو دیکھ کر چھلکے ہے تو میٹھا لگتا ہے
کہاں ترا اپنا پن اور کہاں میرے احسان
پربت ہو کر بھی میرا قد بونا لگتا ہے
اب بھی دل والوں کی بزمیں سجتی ہیں لیکن
پہلے میلے لگتے تھے اب مجمع لگتا ہے
غزل
کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے
نوین سی چترویدی