EN हिंदी
کتنے ساقی مع گلفام لئے پھرتے ہیں | شیح شیری
kitne saqi ma-e-gulfam liye phirte hain

غزل

کتنے ساقی مع گلفام لئے پھرتے ہیں

ارشد صدیقی

;

کتنے ساقی مع گلفام لئے پھرتے ہیں
اور ہم ہیں کہ تہی جام لئے پھرتے ہیں

عمر گزری کے تبسم کی طرح ہونٹوں پر
تلخئ گردش ایام لئے پھرتے ہیں

تذکرے ہیں یہ چمن میں کہ سبھی لالہ و گل
نکہت عارض گلفام لئے پھرتے ہیں

شرم اے حسن جفا پیشہ کہ کوچے میں ترے
آج تک ہم دل ناکام لئے پھرتے ہیں

جانے کیا دیکھا ہے ان شوخ نگاہوں میں کہ ہم
اپنے سر مفت کا الزام لئے پھرتے ہیں

جب سے ہم نے ترے کوچے سے گزرنا چھوڑا
نامہ بر شہر میں پیغام لئے پھرتے ہیں

کیا کریں گے وہ مری راتوں کو روشن ارشدؔ
رخ پہ جو زلف سیہ فام لئے پھرتے ہیں