کتنے میلے ہیں آسمانوں میں
اور ہم بند ہیں مکانوں میں
نسل آدم نکل کے غاروں سے
آ گئی ہے کتاب خانوں میں
لوگ کرتے ہیں انتظار مرا
تیر کھینچے ہوئے کمانوں میں
اژدہے ہیں بہ صورت اشیا
سر اٹھائے ہوئے دکانوں میں
ہم وہ صحرا نورد ہیں جن کا
نجد پھیلا ہے آسمانوں میں
ساعتوں سے گزر رہی ہے رات
آگ روشن رکھو مکانوں میں
غزل
کتنے میلے ہیں آسمانوں میں
دلکش ساگری