کتنے ہی فسانے یاد آئے کتنے ہی سہارے یاد آئے
طوفان نے بانہیں پھیلا دیں جس وقت کنارے یاد آئے
دیوار سے لگ کر سوچوں کی امید کا سارا دن گزرا
جب رات ہوئی تو ہم کو بھی سب خواب ہمارے یاد آئے
پیمان وفا کے سینے سے پھر آج لہو ٹپکا جامیؔ
جو راہ میں تھک کر بیٹھ گئے احباب وہ سارے یاد آئے
غزل
کتنے ہی فسانے یاد آئے کتنے ہی سہارے یاد آئے
خورشید احمد جامی

