EN हिंदी
کتنے ہی فسانے یاد آئے کتنے ہی سہارے یاد آئے | شیح شیری
kitne hi fasane yaad aae kitne hi sahaare yaad aae

غزل

کتنے ہی فسانے یاد آئے کتنے ہی سہارے یاد آئے

خورشید احمد جامی

;

کتنے ہی فسانے یاد آئے کتنے ہی سہارے یاد آئے
طوفان نے بانہیں پھیلا دیں جس وقت کنارے یاد آئے

دیوار سے لگ کر سوچوں کی امید کا سارا دن گزرا
جب رات ہوئی تو ہم کو بھی سب خواب ہمارے یاد آئے

پیمان وفا کے سینے سے پھر آج لہو ٹپکا جامیؔ
جو راہ میں تھک کر بیٹھ گئے احباب وہ سارے یاد آئے