EN हिंदी
کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں | شیح شیری
kitne dip bujhte hain kitne dip jalte hain

غزل

کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں

صہبا لکھنوی

;

کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں
عزم زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
منزلیں نہیں یارو راستے بدلتے ہیں

موج موج طوفاں ہے موج موج ساحل ہے
کتنے ڈوب جاتے ہیں کتنے بچ نکلتے ہیں

مہر‌‌ و ماہ و انجم بھی اب اسیر گیتی ہیں
فکر نو کی عظمت سے روز و شب بدلتے ہیں

بحر و بر کے سینے بھی زیست کے سفینے بھی
تیرگی نگلتے ہیں روشنی اگلتے ہیں

اک بہار آتی ہے اک بہار جاتی ہے
غنچے مسکراتے ہیں پھول ہاتھ ملتے ہیں