کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے
دل کے صحرا خشک پھر بھی رہ گئے
آج تک گم سم کھڑی ہیں شہر میں
جانے دیواروں سے تم کیا کہہ گئے
ایک تو ہے بات بھی سنتا نہیں
ایک ہم ہیں تیرا غم بھی سہہ گئے
تجھ سے جگ بیتی کی سب باتیں کہیں
کچھ سخن نا گفتنی بھی رہ گئے
تیری میری چاہتوں کے نام پر
لوگ کہنے کو بہت کچھ کہہ گئے

غزل
کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے
غلام جیلانی اصغر