EN हिंदी
کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے | شیح شیری
kitne dariya is nagar se bah gae

غزل

کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے

غلام جیلانی اصغر

;

کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے
دل کے صحرا خشک پھر بھی رہ گئے

آج تک گم سم کھڑی ہیں شہر میں
جانے دیواروں سے تم کیا کہہ گئے

ایک تو ہے بات بھی سنتا نہیں
ایک ہم ہیں تیرا غم بھی سہہ گئے

تجھ سے جگ بیتی کی سب باتیں کہیں
کچھ سخن نا گفتنی بھی رہ گئے

تیری میری چاہتوں کے نام پر
لوگ کہنے کو بہت کچھ کہہ گئے