EN हिंदी
کتنے در وا ہیں کہیں آنکھ ملائیں تو سہی | شیح شیری
kitne dar wa hain kahin aankh milaen to sahi

غزل

کتنے در وا ہیں کہیں آنکھ ملائیں تو سہی

محمود شام

;

کتنے در وا ہیں کہیں آنکھ ملائیں تو سہی
اس نئے شہر سے کچھ ربط بڑھائیں تو سہی

کسی خوشبو کے تعاقب میں چلیں گام دو گام
دھیان میں چاندنی کا شہر بسائیں تو سہی

کچھ تو کہتی ہے سر شام سمندر کی ہوا
کبھی ساحل کی خنک ریت پہ جائیں تو سہی

کیا خبر اوٹ میں ہوں اس کی مناظر کیا کیا
اپنے پندار کی دیوار گرائیں تو سہی

دل کے اوراق پہ اب تازہ حکایات لکھیں
نئے لمحوں میں نیا خون رچائیں تو سہی

اپنے بکھرے ہوئے ذروں کو سمیٹیں پھر سے
بزم پھر رقص تمنا کی سجائیں تو سہی

شامؔ یہ روشنی یہ رنگ کے پھیلے ہوئے جال
اک ذرا ان کے طلسمات میں آئیں تو سہی