کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ
خود فراموش ہو گئے ہم لوگ
جس نے چاہا ہمیں اذیت دی
اور خاموش ہو گئے ہم لوگ
دل کی آواز بھی نہیں سنتے
کیا گراں گوش ہو گئے ہم لوگ
ہم کو دنیا نے پارسا سمجھا
جب خطا کوش ہو گئے ہم لوگ
پی گئے جھڑکیاں بھی ساقی کی
کیا بلانوش ہو گئے ہم لوگ
اس طرح پی رہے ہیں خون اپنا
جیسے مے نوش ہو گئے ہم لوگ
شہر میں اس قدر تھے ہنگامے
گھر میں روپوش ہو گئے ہم لوگ
کتنے چہروں پہ آ گئی رنگت
جب سے خاموش ہو گئے ہم لوگ
زخم پائے ہیں اس قدر اعجازؔ
آج گل پوش ہو گئے ہم لوگ
غزل
کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ
اعجاز رحمانی