کتنا مختصر ہے یہ زندگی کا افسانہ
ایک گام مردانہ ایک رقص مستانہ
تو ہی ایک شاکی ہے ذوق تشنہ کامی کا
غرق موج صہبا ہے جبکہ سارا مے خانہ
بس یہی ہے لے دے کے دوریٔ رہ منزل
دو قدم دلیرانہ دو قدم شتابانہ
حق تجھے ہے کیا حاصل زیر چرخ جینے کا
حادثات عالم سے تو اگر ہے بیگانہ
دل نہیں وہ سینے میں ایک سنگ خارا ہے
ہو نہ جس میں پوشیدہ آہ درد مندانہ
یہ بھی ایک دھوکا ہے دیدۂ غلط بیں کا
ورنہ کون دیوانہ اور کون فرزانہ
گاہ گاہ لڑتا رہ عقل مصلحت بیں سے
گاہ گاہ لیتا جا ہاتھ میں بھی پیمانہ
غزل
کتنا مختصر ہے یہ زندگی کا افسانہ
امجد نجمی