کتنا دشوار تھا دنیا یہ ہنر آنا بھی
تجھ سے ہی فاصلہ رکھنا تجھے اپنانا بھی
کیسی آداب نمائش نے لگائیں شرطیں
پھول ہونا ہی نہیں پھول نظر آنا بھی
دل کی بگڑی ہوئی عادت سے یہ امید نہ تھی
بھول جائے گا یہ اک دن ترا یاد آنا بھی
جانے کب شہر کے رشتوں کا بدل جائے مزاج
اتنا آساں تو نہیں لوٹ کے گھر آنا بھی
ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں
تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی
خود کو پہچان کے دیکھے تو ذرا یہ دریا
بھول جائے گا سمندر کی طرف جانا بھی
جاننے والوں کی اس بھیڑ سے کیا ہوگا وسیمؔ
اس میں یہ دیکھیے کوئی مجھے پہچانا بھی
غزل
کتنا دشوار تھا دنیا یہ ہنر آنا بھی
وسیم بریلوی