کتنا عجیب شب کا یہ منظر لگا مجھے
تاروں کی صف میں چاند سخنور لگا مجھے
سوچا تو ہم سفر مجھے تنہائیاں ملیں
دیکھا تو آسمان بھی سر پر لگا مجھے
تجھ سے بچھڑ کے یہ مری آنکھوں کو کیا ہوا
جس پر نظر پڑی ترا پیکر لگا مجھے
یہ کس نے آ کے شہر کا نقشہ بدل دیا
دیکھا ہے جس کسی کو وہ بے گھر لگا مجھے
سمٹا ترا خیال تو دل میں سما گیا
پھیلا تو اس قدر کہ سمندر لگا مجھے
بسملؔ وہ میری جان کا دشمن تو تھا مگر
کیوں پوری کائنات سے بہتر لگا مجھے
غزل
کتنا عجیب شب کا یہ منظر لگا مجھے
بسمل آغائی