کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں
میں اس کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں
پرانی شکل صورت گر ملامت بن گئی ہے
نئی مٹی سے پھر ایجاد ہونا چاہتا ہوں
کسی کے ہجر میں حیرت کدے آباد دیکھوں
کسی کے وصل میں برباد ہونا چاہتا ہوں
اسے بھی اپنی بانہوں میں تڑپتا دیکھنا ہے
میں اس کا صید تھا صیاد ہونا چاہتا ہوں
اسی خوشبو سے پھر ہم خواب ہونے کی ہوس ہے
اسی خوش وصل سے دل شاد ہونا چاہتا ہوں
اب اپنی ذات کے زنداں میں بھی دم گھٹ رہا ہے
کوئی دم خود سے بھی آزاد ہونا چاہتا ہوں
غزل
کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں
کامران ندیم