کسی ٹرین کے نیچے وہ کٹ گیا ہوتا
غبار راہ طلسمات چھٹ گیا ہوتا
چلو یہ اچھا کہ چندن بدن سے دور رہے
میں سانپ بن کے کمر سے لپٹ گیا ہوتا
کسی کے ہجر میں اتنی گھٹن سے بہتر تھا
ہوا میں صورت غبارہ پھٹ گیا ہوتا
ہوا کہ ڈھیر سی اشیا سے بھر گیا دامن
اے کاش ذرۂ نیکی بھی اٹ گیا ہوتا
زبان آتی تو اسلوب کوئی گڑھ لیتا
اسے پٹانا نہیں تھا وہ پٹ گیا ہوتا
غزل
کسی ٹرین کے نیچے وہ کٹ گیا ہوتا
شمیم قاسمی