EN हिंदी
کسی تھکن کو سخن بنا لوں بھی بہت ہے | شیح شیری
kisi thakan ko suKHan bana lun bhi bahut hai

غزل

کسی تھکن کو سخن بنا لوں بھی بہت ہے

محشر بدایونی

;

کسی تھکن کو سخن بنا لوں یہی بہت ہے
میں چند فرصت کے پل بچا لوں یہی بہت ہے

ہنر کا حق تو ہوا کی بستی میں کون دے گا
ادھر میں اپنا دیا جلا لوں یہی بہت ہے

یہ ہجر کے زخم بھی بڑے لالہ کار دل ہیں
میں گھر کے رنگوں سے گھر سجا لوں یہی بہت ہے

وہ عارفان سبق کہاں اب جو دل بڑھائیں
میں سچ لکھوں حرف کی دعا لوں یہی بہت ہے

تھمی نہ یلغار وقت کہتا ہی رہ گیا میں
ابھی میں اتنا ہی بوجھ اٹھا لوں یہی بہت ہے