کسی طرح بھی کسی سے نہ دل لگانا تھا
خیال یار میں دنیا کو بھول جانا تھا
جو بے رخی تھی یہی رخ نہیں چھپانا تھا
مرے خیال میں بھی آپ کو نہ آنا تھا
اسی سبب سے وہ پردے میں چھپ کے بیٹھے ہیں
کہ پردے پردے میں کچھ ان کو رنگ لانا تھا
ازل سے روح جو پھونکی گئی ہے ذروں میں
تو یہ سمجھ لو کہ جلوہ اسے دکھانا تھا
زمانہ کھنچ کے پہنچتا ہے اپنے مرکز پر
ضرور دائرۂ زندگی میں آنا تھا
غزل
کسی طرح بھی کسی سے نہ دل لگانا تھا
بسمل الہ آبادی