EN हिंदी
کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں | شیح شیری
kisi taraf jaane ka rasta kahin nahin

غزل

کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں

ضمیر اظہر

;

کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں
ایسا گھور اندھیرا دیکھا کہیں نہیں

کس ظالم نے پر پیڑوں کے کاٹ دیے
آگ اگلتی دھوپ میں سایہ کہیں نہیں

تشنہ روح کی پیاس بجھانے پہنچے تھے
دریا میں بھی پانی پایا کہیں نہیں

کانچ کی صورت سارے سپنے ٹوٹ گئے
چھم سے برسنے بادل آیا کہیں نہیں

محفل محفل اظہرؔ عمر گزاری ہے
ہم سا لیکن تنہا تنہا کہیں نہیں