کسی سے ربط نہیں ہے کسی سے پیار مجھے
نہ جانے رہتا ہے پھر کس کا انتظار مجھے
ہر ایک سانس مری عمر کو گھٹاتی ہے
نفس کا تار ہے گویا کفن کا تار مجھے
مری بہار کو موسم کا انتظار نہیں
کوئی جو ہنس کے ملا مل گئی بہار مجھے
نہ بے قرار ہو تو میری بے قراری پر
تڑپ تڑپ کے خود آ جائے گا قرار مجھے
یہ دل کا آئنہ اب توڑنے کے قابل ہے
دکھائی دیتا نہیں اس میں روئے یار مجھے
کسی کے حسن کی میں نے بہار دیکھی ہے
چمن کے پھول دکھاتے ہیں کیا بہار مجھے
یہ خود فریبی ہے میری کہ خود فراموشی
نہ آنے والے کا رہتا ہے انتظار مجھے
مرے وجود سے حرکت تو ہے زمانے میں
اگرچہ موج کی صورت نہیں قرار مجھے
مرے چمن ہی سے وابستگی ہے دونوں کی
عزیز کیوں نہ ہوں پھولوں کے ساتھ خار مجھے
جگرؔ کے خون سے آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں
سمجھ رہا ہے زمانہ شراب خوار مجھے
غزل
کسی سے ربط نہیں ہے کسی سے پیار مجھے
جگر جالندھری